Sunday, 27 September 2020

چاند پر چرخہ کاتتی بڑھیا

چاند پر چرخہ کاتتی بڑھیا

عقل و شعور کی دہلیز  پر 
جب پاؤں میں نے دھرے نہ تھے
نانی مجھ سے کہتی تھیں
چاند پر اک بڑھیا رہتی ہے
چرخہ کاتتی رہتی ہے
میں جب چاند کو دیکھتی 
تو اکثر سوچا کرتی تھی
چاند پر چرخہ کاتتی بڑھیا
تنہا کیسے رہتی ہے
اتنی حسیں دنیا کو چھوڑ
دور گگن میں جا کیوں بیٹھی ہے
لیکن آج مجھے لگتا ہے
یہ دنیا   بالکل ویسی  نہیں 
میں جیسی  سمجھا کرتی  تھی
اس انسانوں کی بستی میں
پتھر کے دل  سب رکھتے ہیں
بےحسی  کی دیواروں  میں
خود کو  چن کر
   مطمئن سب رہتے ہیں
  کوئ بھوکا ہے کہ پیاسا ہے
یہاں اس سے کسی کو غرض نہیں
ظلم کا  ننگا ناچ یہاں ہے
طاقتور کا  راج یہاں ہے
محنت کش کا مول نہیں
حق کا کوئی رول نہیں
آواز کوئی  اٹھائے گر  تو
خاموش کرادیتے ہیں اسکو
مکر وفریب کا دشت  یہاں
حرص و لالچ کے کھیتوں سے
خودغرضی کی فصلیں اگتی ہیں
ہمدردی کے چوغے میں
مفاد چھپے ہوتے ہیں سب کے
سانپ بنے سب بیٹھے ہیں
کب موقع ملے کہ ڈس لیں یہ
یہاں رشتے سارے جھوٹے ہیں
ان جھوٹے رشتے ناتوں سے
ان مفاد پرست لوگوں  سے
دور ہی رہنا اچھا ہے
تنہا ہی رہنا اچھا ہے
شبنم  فردوس

Labels:

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home