Tuesday, 25 May 2021

Nazm ‎(نظم) ‏_Gumaan

گمان

کھڑی تھی کل جو ٹیرس پہ
فلک کو تک رہی تھی میں
 اچانک ہی نظر میری
 ہوا کے دوش پہ اڑتے سکائ لارک پر پہنچی
 اسے دیکھا ہواؤں سے جو میں نے گفتگو کرتے
  اٹھی خواہش مرے دل میں
 فضا میں سانس لوں کھل کے
 اڑوں میں بھی کبھی ایسے 
  کہ چھو لوں آسماں جاکے
 چلوں میں سنگ بادل کے
 ہوا سے گفتگو کر لوں
 ستاروں پہ قدم رکھ لوں
 میں اپنی سوچ میں گم تھی
 کہ اک آواز سے چونکی 
 پلٹ کے میں نے جو دیکھا
 ہوئی حیران میں بالکل
 کھڑی تھی رو برو میرے 
 پری صورت کوئی بچی
 چھوئی موئی سی تھی بالکل
 بنی ہو برف کی جیسے
 کہ چھولوں میں اگر آسکو
 پگھل جائے گی لمحے میں
 کہ جیسے برف سورج کی تپش پا کے بنے پانی
  سنہری کانچ سی آنکھیں
 بڑی پر نور سی آنکھیں 
  لبوں پر مسکراہٹ تھی
 کہ جیسے ہے بڑی گہری شناسائی
 سنہری ڈور کے جیسا تعلق ہو ہمارے درمیاں کوئی
  ہوئی مسحور میں ایسی
 کئی لمحے کوئی حرکت نہ کر پائی 
 بڑھایا پھر قدم میں نے
 اسے چھو کر ذرا دیکھوں
 مگر اس نے اسی لمحے
 پلک اپنی یوں جھپکائی 
 کہ جیسے کہہ رہی ہو وہ
 چلو اک گیم کھیلیں ہم
 وہی اسٹاپ ان اسٹیچو (stop n statue) بچے کھیلتے ہیں جو
   سمجھ کے بات کو اسکی
 قدم یوں رک گئے میرے
 کہ جیسے بت ہوں پتھر کی
 اسے دیکھے گئ بس میں
 اسی لمحے
 اچانک لب ہلے اسکے
 کہا پھر ماں مجھے اس نے
 مرے پتھر کے اس تن میں
 حرارت زندگی کی برق رفتاری سے یوں دوڑی
 بنا سوچے بنا سمجھے
 پکڑنا جو اسے چاہا
 زمیں پہ گر پڑی دھم سے
 نہیں تھی وہ کہیں پر بھی
 ہوا محسوس پھر مجھکو
 پری زادی جو آئی تھی
 تخیل تھی فقط میرا
 جسے برسوں سے اکثر دیکھتی ہوں خواب میں اپنے 
 حقیقت سے نہیں ہے واسطہ کوئی
مگر رشتہ انوکھا ہے
شناسائی پرانی ہے
فردوس

Labels: , , ,

1 Comments:

At 3 October 2022 at 18:47 , Anonymous Anonymous said...

واااہ شاندااار

 

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home