گمان
کھڑی تھی کل جو ٹیرس پہ
فلک کو تک رہی تھی میں
اچانک ہی نظر میری
ہوا کے دوش پہ اڑتے سکائ لارک پر پہنچی
اسے دیکھا ہواؤں سے جو میں نے گفتگو کرتے
اٹھی خواہش مرے دل میں
فضا میں سانس لوں کھل کے
اڑوں میں بھی کبھی ایسے
کہ چھو لوں آسماں جاکے
چلوں میں سنگ بادل کے
ہوا سے گفتگو کر لوں
ستاروں پہ قدم رکھ لوں
میں اپنی سوچ میں گم تھی
کہ اک آواز سے چونکی
پلٹ کے میں نے جو دیکھا
ہوئی حیران میں بالکل
کھڑی تھی رو برو میرے
پری صورت کوئی بچی
چھوئی موئی سی تھی بالکل
بنی ہو برف کی جیسے
کہ چھولوں میں اگر آسکو
پگھل جائے گی لمحے میں
کہ جیسے برف سورج کی تپش پا کے بنے پانی
سنہری کانچ سی آنکھیں
بڑی پر نور سی آنکھیں
لبوں پر مسکراہٹ تھی
کہ جیسے ہے بڑی گہری شناسائی
سنہری ڈور کے جیسا تعلق ہو ہمارے درمیاں کوئی
ہوئی مسحور میں ایسی
کئی لمحے کوئی حرکت نہ کر پائی
بڑھایا پھر قدم میں نے
اسے چھو کر ذرا دیکھوں
مگر اس نے اسی لمحے
پلک اپنی یوں جھپکائی
کہ جیسے کہہ رہی ہو وہ
چلو اک گیم کھیلیں ہم
وہی اسٹاپ ان اسٹیچو (stop n statue) بچے کھیلتے ہیں جو
سمجھ کے بات کو اسکی
قدم یوں رک گئے میرے
کہ جیسے بت ہوں پتھر کی
اسے دیکھے گئ بس میں
اسی لمحے
اچانک لب ہلے اسکے
کہا پھر ماں مجھے اس نے
مرے پتھر کے اس تن میں
حرارت زندگی کی برق رفتاری سے یوں دوڑی
بنا سوچے بنا سمجھے
پکڑنا جو اسے چاہا
زمیں پہ گر پڑی دھم سے
نہیں تھی وہ کہیں پر بھی
ہوا محسوس پھر مجھکو
پری زادی جو آئی تھی
تخیل تھی فقط میرا
جسے برسوں سے اکثر دیکھتی ہوں خواب میں اپنے
حقیقت سے نہیں ہے واسطہ کوئی
مگر رشتہ انوکھا ہے
شناسائی پرانی ہے
Labels: falak, gumaan, khwab, parinda
1 Comments:
واااہ شاندااار
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home