ہجر
کہا کرتے تھے تم مجھ سے
محبت دائمی ہے جاں
کبھی مرتی نہیں ہے یہ
کوئی بھی روپ دھارے یہ
ہمیشہ سنگ رہتی ہے
محبت آس ہوتی ہے
شبِ تاریک میں اکثر
نویدِ صبح لاتی ہے
محبت ایک خوشبو ہے
یہ اپنے سحر میں ہم کو
ہمیشہ قید رکھتی ہے
محبت راگ جیسی ہے
کسی نغمے کی صورت میں
لبوں پہ رقص کرتی ہے
محبت ابر جیسی ہے
کسی بنجر زمیں پہ جب برستی ہے
بہاریں لوٹ آتی ہیں
کہا تو سچ ہی تھا تم نے
محبت ابر ہے جاناں
مگر اسکی طبیعت میں بہت ہی بے قراری ہے
یہ اک جا ٹک نہیں سکتی
جہاں پہ یہ برستی ہے
بہاریں لوٹ آتیں ہیں
کہا تو سچ ہی تھا تم نے
مگر پھر وقت کی گرمی نمی کو چوس لیتی ہے
محبت بھاپ بن کر اڑنے لگتی ہے
نئے بادل بناتی ہے
ہوا کے رخ بدلتے ہیں
نئے جذبے پنپتے ہیں
یہ ہجرت کرنے لگتی ہے
کسی دوجے کی چاہت میں
مگر جس جا سے جاتی ہے
وہاں پودوں کی شاخوں پر خزائیں لوٹ آتی ہیں
زمینیں خشک ہوتی ہیں
دراڑیں پڑنے لگتی ہیں
تمنا کے گلابوں پر نزع کی کیفیت بے رحم پنجوں سے مسلّط ہونے لگتی ہے
سبھی خوش رنگ امّیدوں کی ڈوریں ٹوٹ جاتی ہیں
لبوں پہ رقص کرتے راگ سارے بھول جاتے ہیں
وفا کے نام پہ قسمیں یہ سارے عہد اور پیماں
کسی شیشے کی صورت میں چٹخ کے ٹوٹ جاتے ہیں
دیے تھے ہاتھ جو ہاتھوں میں آخر چھوٹ جاتے ہیں
Labels: hijr, judaai, muhabbat
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home