Ghazal _ zindagani javedani bhi nahi by Amjad Islam Amjad

زندگانی جاودانی بھی نہیں لیکن اس کا کوئی ثانی بھی نہیں ہے سوا نیزے پہ سورج کا علم تیرے غم کی سائبانی بھی نہیں منزلیں ہی منزلیں ہیں ہر طرف راستے کی اک نشانی بھی نہیں آئنے کی آنکھ میں اب کے برس کوئی عکس مہربانی بھی نہیں آنکھ بھی اپنی سراب آلود ہے اور اس دریا میں پانی بھی نہیں جز تحیر گرد باد زیست میں کوئی منظر غیر فانی بھی نہیں درد کو دل کش بنائیں کس طرح داستان غم کہانی بھی نہیں یوں لٹا ہے گلشن وہم و گماں کوئی خار بد گمانی بھی نہیں امجد اسلام امجد  ज़िंदगानी जावेदानी भी नहीं लेकिन इस का कोई सानी भी नहीं है सवा-नेज़े पे सूरज का अलम तेरे ग़म की साएबानी भी नहीं मंज़िलें ही मंज़िलें हैं हर तरफ़ रास्ते की इक निशानी भी नहीं आइने की आँख में अब के बरस कोई अक्स-ए-मेहरबानी भी नहीं आँख भी अपनी सराब-आलूद है और इस दरिया में पानी भी नहीं जुज़ तहय्युर गर्द-बाद-ए-ज़ीस्त में कोई मंज़र ग़ैर-फ़ानी भी नहीं अमजद इस्लाम अमजद  दर्द को दिलकश बनाएँ किस तरह दास्तान-ए-ग़म कहानी भी नहीं यूँ लुटा है गुलशन-ए-वहम-ओ-गुमाँ कोई ख़ार-ए-बद-गुमानी भी नहीं अमजद इस्लाम अमजद

چاند پر چرخہ کاتتی بڑھیا

چاند پر چرخہ کاتتی بڑھیا

عقل و شعور کی دہلیز  پر 
جب پاؤں میں نے دھرے نہ تھے
نانی مجھ سے کہتی تھیں
چاند پر اک بڑھیا رہتی ہے
چرخہ کاتتی رہتی ہے
میں جب چاند کو دیکھتی 
تو اکثر سوچا کرتی تھی
چاند پر چرخہ کاتتی بڑھیا
تنہا کیسے رہتی ہے
اتنی حسیں دنیا کو چھوڑ
دور گگن میں جا کیوں بیٹھی ہے
لیکن آج مجھے لگتا ہے
یہ دنیا   بالکل ویسی  نہیں 
میں جیسی  سمجھا کرتی  تھی
اس انسانوں کی بستی میں
پتھر کے دل  سب رکھتے ہیں
بےحسی  کی دیواروں  میں
خود کو  چن کر
   مطمئن سب رہتے ہیں
  کوئ بھوکا ہے کہ پیاسا ہے
یہاں اس سے کسی کو غرض نہیں
ظلم کا  ننگا ناچ یہاں ہے
طاقتور کا  راج یہاں ہے
محنت کش کا مول نہیں
حق کا کوئی رول نہیں
آواز کوئی  اٹھائے گر  تو
خاموش کرادیتے ہیں اسکو
مکر وفریب کا دشت  یہاں
حرص و لالچ کے کھیتوں سے
خودغرضی کی فصلیں اگتی ہیں
ہمدردی کے چوغے میں
مفاد چھپے ہوتے ہیں سب کے
سانپ بنے سب بیٹھے ہیں
کب موقع ملے کہ ڈس لیں یہ
یہاں رشتے سارے جھوٹے ہیں
ان جھوٹے رشتے ناتوں سے
ان مفاد پرست لوگوں  سے
دور ہی رہنا اچھا ہے
تنہا ہی رہنا اچھا ہے
شبنم  فردوس

Comments