Bebasi

بے بسی کھلی فضا ہو ہا بند کمرہ نہیں ہے کوئی کہیں سرکشت سفید کپڑے میں موت رقصاں ہر ایک سو ہے ہر ایک گھر کے ہر ایک در پر وہ کھلھلاتی بجاتی گھنٹی گزر رہی ہے عجیب دہشت چہار سو ہے قیامتی رنگ بکھر گیا ہے ہزاروں لاشیں پڑی ہوئی ہیں زمیں بھی انکاری ہو گئی ہے لبوں پہ اپنے لگا کے پٹی گھروں میں بے بس ہیں اپنی باری کے منتظر ہم نہ مال و دولت نہ رشتے ناطے ہماری سانسیں خرید سکتے ہمارے کرموں کا پھل ہے شاید فضا میں موچود آکسیجن ہے پھر بھی ہم تو ترس رہے ہیں شبنم فردوس