Bebasi
بے بسی
کھلی فضا ہو
ہا بند کمرہ
نہیں ہے کوئی کہیں سرکشت
سفید کپڑے میں موت رقصاں ہر ایک سو ہے
ہر ایک گھر کے
ہر ایک در پر
وہ کھلھلاتی
بجاتی گھنٹی
گزر رہی ہے
عجیب دہشت
چہار سو ہے
قیامتی رنگ
بکھر گیا ہے
ہزاروں لاشیں
پڑی ہوئی ہیں
زمیں بھی انکاری ہو گئی ہے
لبوں پہ اپنے
لگا کے پٹی
گھروں میں بے بس
ہیں اپنی باری کے منتظر ہم
نہ مال و دولت
نہ رشتے ناطے
ہماری سانسیں
خرید سکتے
ہمارے کرموں کا پھل ہے شاید
فضا میں موچود آکسیجن ہے
پھر بھی ہم تو
ترس رہے ہیں
Comments