Sunday, 9 May 2021

کمی

کمی
چلو ہم مان لیتے ہیں 
کسی کے چھوڑ جانے سے 
نہیں موجود رہنے سے 
نہیں کچھ فرق پڑتا ہے 
زمیں چلتی ہی رہتی ہے 
نہیں اک پل بھی رکتی ہے 
فلک   میں تارے سجتے  ہیں ، 
نکلتا شمس ہے ہر دن  
چہکتی رہتی ہے چڑیا 
مہکتا رہتا ہے گلشن 
کہاں کچھ بھی بدلتا ہے
مگر 
اس شخص سے پوچھو 
کسی کو  کھو دیا  جس نے  
کہ اس پر کیا گزرتی ہے
قیامت ٹوٹ پڑتی ہے 
زمیں اس کی کھسکتی ہے 
چمن اسکا اجڑتا ہے
خزاں کے زرد پتوں کی طرح وہ تو بکھرتا ہے  
کسی تاریک کونے میں 
وہ نوحہ خوانی کرتا ہے 
لہو آنکھوں سے رستے ہیں 
ہزاروں خواب مرتے ہیں 
وہ زندہ  ہوتے ہوئے بھی
کہاں زندہ ہی رہتا ہے 

شبنم فردوس

Labels: , , ,

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home