Nazm (نظم) _Gumaan
گمان
کھڑی تھی کل جو ٹیرس پہ
فلک کو تک رہی تھی میں
اچانک ہی نظر میری
ہوا کے دوش پہ اڑتے سکائ لارک پر پہنچی
اسے دیکھا ہواؤں سے جو میں نے گفتگو کرتے
اٹھی خواہش مرے دل میں
فضا میں سانس لوں کھل کے
اڑوں میں بھی کبھی ایسے
کہ چھو لوں آسماں جاکے
چلوں میں سنگ بادل کے
ہوا سے گفتگو کر لوں
ستاروں پہ قدم رکھ لوں
میں اپنی سوچ میں گم تھی
کہ اک آواز سے چونکی
پلٹ کے میں نے جو دیکھا
ہوئی حیران میں بالکل
کھڑی تھی رو برو میرے
پری صورت کوئی بچی
چھوئی موئی سی تھی بالکل
بنی ہو برف کی جیسے
کہ چھولوں میں اگر آسکو
پگھل جائے گی لمحے میں
کہ جیسے برف سورج کی تپش پا کے بنے پانی
سنہری کانچ سی آنکھیں
بڑی پر نور سی آنکھیں
لبوں پر مسکراہٹ تھی
کہ جیسے ہے بڑی گہری شناسائی
سنہری ڈور کے جیسا تعلق ہو ہمارے درمیاں کوئی
ہوئی مسحور میں ایسی
کئی لمحے کوئی حرکت نہ کر پائی
بڑھایا پھر قدم میں نے
اسے چھو کر ذرا دیکھوں
مگر اس نے اسی لمحے
پلک اپنی یوں جھپکائی
کہ جیسے کہہ رہی ہو وہ
چلو اک گیم کھیلیں ہم
وہی اسٹاپ ان اسٹیچو (stop n statue) بچے کھیلتے ہیں جو
سمجھ کے بات کو اسکی
قدم یوں رک گئے میرے
کہ جیسے بت ہوں پتھر کی
اسے دیکھے گئ بس میں
اسی لمحے
اچانک لب ہلے اسکے
کہا پھر ماں مجھے اس نے
مرے پتھر کے اس تن میں
حرارت زندگی کی برق رفتاری سے یوں دوڑی
بنا سوچے بنا سمجھے
پکڑنا جو اسے چاہا
زمیں پہ گر پڑی دھم سے
نہیں تھی وہ کہیں پر بھی
ہوا محسوس پھر مجھکو
پری زادی جو آئی تھی
تخیل تھی فقط میرا
جسے برسوں سے اکثر دیکھتی ہوں خواب میں اپنے
حقیقت سے نہیں ہے واسطہ کوئی
مگر رشتہ انوکھا ہے
شناسائی پرانی ہے
Comments